Posts

کربلا، فلس ط ین، کیسے ممکن ہوا ؟

 اب سمجھ آتی ہے کربلا کا سانحہ کیسے ہوا ہو گا۔  لخت جگر، نواسہ رسول، کیسے شہید کردیے گے ہوں گے  اور  باقی مسلمان  کیوں کر خاموش رہے ہوں گے۔  تب میڈیا نہیں تھا،  اور  کمیونیکیشن سست رفتار تھی۔  9 ارب کی دنیا میں  آج دو ارب  خود کو  مسلمان کہتے ہیں، جبکہ  بیس لاکھ کربلا میں  تنے تنہا  اپنا سب کچھ لٹا رہے ہیں اور باقی اربوں ذندہ لاشیں،  واللہ  یہ بیس لاکھ ہی  دراصل ماننے والے ہیں اور باقی سب  وہ  "جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود"  باقی سب کو  چھوڑیں ہم اپنی بات کرتے ہیں۔  کیا ہم اساتذہ  رب کے حضور ان بچوں اور معصوموں کے  قتل نا حق کا  جواب دیں پائیں گے؟  جب رب العالمین،  پوچھیں گے اے فلاں  میرے ماننے والے  جنہیں میں حرم کعبہ سے بھی زیادہ عزیز رکھتا تھا ان کے قتل پر  تمہاری خاموشی  اور زباں بندی  کیوں تھی؟  کیا تم  اپنے طلبہ کو  اس کربلا کا شعور تک دینے سے قاصر تھے ؟  تب  ہم میں سے کون ہے جو بار گاہ رب العزت کے،  جواب دے پائے گا؟  *کیا ابھی وقت نہیں آیا* *کہ ہم بیدار ہو جائیں ؟*

مزدور کی آواز

مزدور کی آواز اور  ۔۔۔ انسان کبھی غلام کی شکل میں قابل فروخت تھا۔ ساری دنیا میں،  بڑے بڑے جاگیردار انسانوں کی منڈیوں سے اپنے جیسے انسان خرید کر لایا کرتے تھے۔ اور آج جدید ترقی یافتہ دور میں، جہاں گلوبلائزیشن اور ٹیکنالوجی اہم ہیں، انسان ایک بار پھر قابل فروخت ہو گیا ہے۔ یہ خرید و فروخت کا عمل آخر کیا نتائج دینا چاہتا ہے؟  اگر سب کچھ انسان ہی کی خدمت اور خوشحالی کے لیے بنایا جا رہا ہے تو دنیا میں اتنی غربت کیوں ہے؟ اور یہ تیسری دنیا ،اور ترقی یافتہ دنیا کی تقسیم کس لیے کی گئی ہے۔ کیا یہ تقسیم کھلا  تضاد نہیں؟ ایسی زندگی جس میں قابل ستائش حد تک عزت و سکون حاصل ہو۔ دو وقت کا کھانا، تن ڈھانپنے کو کپڑا  اور رہنے کو مکان۔ علاج معالجہ کے لیے ہسپتال اور تعلیم کے لیے سکول ۔ خریدوفروخت کے لیے مارکیٹ اور کھیل کے لیے میدان۔محبت، پیاراور دکھ سکھ کے لیے ماں باپ، بہن بھائی اور دوست احباب کے رشتے۔ اس سب کچھ کے لیے کتنا پیسہ درکار ہو گا؟  چند سو روپے؟   کارل مارکس نے لکھا کہ سوسائٹی میں افراد کی تقسیم  دو طبقات میں ہوتی ہے۔ پہلا طبقہ دولت مند اور دوسرا طبقہ مزدور /محنت کش کہلاتا ہے۔ کام کی یک

بلوچستان کا مقدمہ

Image
بلوچستان کا مقدمہ قیام پاکستان کی مہم جوئی میں ایک جانب مشرقی پاکستان [موجودہ بنگلہ دیش] کے پرجوش عوام کا کردار مثالی تھا تو دوسری جانب دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی عوام نے ہر لحاظ سے قائد اعظم اور بلوچ سردار  بانی پاکستان کا ساتھ دیا۔ سوال یہ ہے کہ محب وطن اور پرامن بلوچی آخر کیوں کربدامنی کا شکار ہیں؟ آخر کیا وجوہات ہیں کہ کل تک مہمانوازی کی شاندار تاریخ رکھنے والے بلوچ آج اتنے سفاک اور خون خار ہو چکے ہیں کہ نہتے، معصوم اور بے گناہ مزدوروں تک کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے جا رہے ہیں۔۔۔ قبائلی نظام: سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی طرح بلوچستان میں بھی مضبوط قبائلی نظام پر مبنی معاشرہ آباد ہے۔ باقی صوبوں کے برعکس یہ نظام یہاں زیادہ متحرک اور موئثر اندازمیں موجود ہے۔ بلوچستان کے بعض علاقوں میں آج بھی قبیلےکے سردار ہی حتمی فیصلہ کرتے ہیں۔ اصل حکمرانی انہیں کے پاس ہے۔ جیوپولیٹیکل ویو: ایک طرف تو بلوچستان پاکستان کا،  رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے تو آبادی کےتناسب سے سب سے چھوٹا بھی۔ زیادہ اہمیت کی بات یہ ہے کہ بلوچستان بیک وقت ہمسائے ممالک افغانستان اور ایرا

گھوسٹ کلچر سے امید کی کرن تک...

Image
گھوسٹ کلچر سے امید کی کرن تک  جتنا سوچتا جا رہا ہوں اتنا ہی گھوسٹ کلچر کی د لدل میں اپنے آپ کو دھنستا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔ کبھی آپ نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو اپنا ہی جسم کھاتا ہو؟  ہاں یہ ضرور سنا ہو گا کہ لوگ اُسی شاخ گل کو کاٹنے لگ جاتے ہیں، جس پر نشیمن کا سہارا ہوتا ہے۔ البتہ اب جب کہ عباسی شہید ہسپتال  کراچی کی انتظامیہ والے جاگ ہی گے ہیں۔ یا پھر جگا دیے گے ہیں۔ تو بچارے حماد صدیقی ہمرا ہ ساز وسامان کے،  گنگنا رہے ہونگے جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے یہ بات تو کوئی ماہر علم و آدب ہی بتا سکتا ہے کہ محاورہ ساز نے آخر پتوں کی تمثیل کے  واسطے ہوا کا  ذکر کیوں کیا؟ کیا اسے خبر تھی کہ آنے والے " قدیم"  زمانے میں لوگ بجلی جیسی انمول نعمت سے محروم کر دیے جا ئیں گئے۔۔۔ یادِ بسیار کے گھوسٹ کلچر کا ذکر خیر سکولوں کی مد میں تو کافی زبان زِعام رہا ہے، اب ہسپتالوں کا نمبر بھی لگ گیا۔۔۔ ویسے ایوان میں جو ممبران چُپ کا روزہ رکھ کر اپنی مدتِ اسمبلی پوری کر کے واپس غریب عوام کو سدھار جاتے ہیں، اُن کی اس حالت کو کیا کہا جائے؟ دماغ کا کیا کیا جائے کہ سوال پے سوال د

وقت کا تکونی تصور [3]

Image
وقت کا تکونی تصور  [3]  آ پ اگر وقت کی قدر صرف اپنے کام کی ترتیب [management]     اور بروقت انجام دہی [well-in-time] کے لیے  کرتے ہیں تو جان لیجیے کہ آپ ظاہری دنیا میں کامیاب ضرور ہیں لیکن حقیقت میں وقت آپ پر احسان کر رہا ہے کہ آپ کی کچی عمارت کو چند اور ساعتیں بخش رہا ہے جو کہ جلد ختم ہونے کو ہیں۔  جس کے نتیجہ میں آپ اپنی منزل کے قریب پہنچ  کر ہمیشہ کے لیے دور ہو جائیں گے۔ تیسری قدر : آپ نے دیکھا کہ وقت ایک نظم کا نام ہے تو ساتھ ہی ساتھ تبدیلی کا پیغام بھی ہے۔ اب تیسری قدر کیا ہوگی؟  پابندی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی اور مسلسل نشونما  (گروتھ)جہاں ضروری ہے وہیں ترجیحات (priorities) کا تعین بھی ضروری بلکہ لازم وملزوم ہے۔یہی وقت کا تیسرا پیغام ہے۔  ہر وقت کئی []تبدیلیاں آپ کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہوتی ہیں۔  ہزاروں ضرورتیں آپ کی توجہ کی خواں ہوتی ہیں۔ کئی طرح کے حالات کا سامنا آپ کو کرنا پڑتا ہے ۔ اب کیا ہر ایک کام کو  کرنا ضروری ہے؟ کیا ہر صلاحیت سے آراستہ ہوجانا چائیے؟  یقینا آپ خود کہیں گے کہ ہر کام کوسیکھنا، ہربات کا جواب دینا، اگر ممکن ہو بھی تو کم از کم ضروری ت

میرا جرم کیا ہے؟؟؟

Image
میرا  جرم کیا ہے؟؟؟ سکول میں ٹیچر اپنے شاگرد کو ہوم ورک نہ کرنے کی سزا دیتا ہے۔ پولیس کسی مجرم کو اس کے کردہ گناہ کی سزا دلانے کے لیے عدالت کے روبرو پیش کرتی ہے۔ حکومت پارلیمان کی مدد سے قانون سازی کرتی ہے۔ ملک کے دفاعی ادارے اپنے وطن کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ اور عام شہری ہر محاذ  پر اپنی قربانی دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔یوں سارا نظام کسی اخلاقی ضابطے کا پابند ہوتا ہے لیکن یہ بنگلہ دیش میں کیا ہو رہا ہے؟؟ Prof. Ghulam Azam عام شہری اپنے وطن سے بے لوث محبت کرتا ہے۔ اس کو اس کام کے عوض کوئی مراعات نہیں ملتیں۔ کوئی زمین الاٹ نہیں کی جاتی۔ کوئی قرض معاف نہیں ہوتا۔ بیرون ممالک دوروں کی سہولیات بھی میسر نہیں ہوتیں۔ اپنے جان و مال کے تحفظ کے لیے فول پروف سکیورٹی تک کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ اس سب کچھ کے ساتھ اس عام شہری کی ذمہ داری ہے کہ اپنی محنت کی حلال کمائی میں سے اقتدار کے ایوانوں میں براجمان سنگ دل لیڈروں کی بے لگام عیاشیوں کے لیے ٹیکس کی صورت میں بھتہ بھی بروقت دیتا رہے۔ بات اگر یہیں تک رہتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ ایک آس تو ہوتی ہے کہ کبھی نا کبھی تو یہ سیاسی بازی

وقت کا تکونی تصور 02

وقت کا تکونی تصور 02 وقت جسے انگریزی زبان میں ٹائم لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔اس سے متعلق ماہرین علم طبیعات یعنی فزکس ، جن کے ہاں وقت ناپنے کا کم سے کم پیمانہ سیکنڈ یعنی لمحہ ہے، کہتے ہیں کہ "سیکنڈ اس عرصہ کو کہا جائے گا کہ جس میں سی ایس133 ایٹم اپنے 9192631770 ارتعاش مکمل کرلے"۔ دوسری جانب ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ  "مسلسل پیشرفت کا نام وقت ہے۔  جسے ماضی، حال اور مستقبل کے درجوںمیں تقسیم کیا جاتا ہے"۔ پہلی قدر: اگر آپ کائنات کے نظام کار پر غور کریں تو  آپ کو محسوس ہو گا   کہ اس گلیکسی کی ہر شے ایک خاص نظم و ضبط کی پابند ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ نظام شمسی کی تمام اشیاء ایک طے شدہ اوقات کار[سسٹم]  کی پابند ہیں۔ جیسے سورج اپنے ایک خاص وقت پر طلوع وغروب ہوتا ہے۔ انسان اپنی اس زندگی کے طے شدہ  ماہ  و  سال گزار کر دائمی حیات کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ تما م سیارے طے شدہ  رفتار کے ساتھ اپنے اپنے مدار میں گردش کرتے ہیں تاکہ اپنے وقت پر سفر کی مسافتوں کو طے کریں۔ وقت کی پہلی قدر، دراصل پابندی کا پیغام ہے۔ نظم و ضبط (discipline) کا درس ہے۔ یہ پہلو ہم